*پاک سعودی دفاعی معاہدہ — خطے میں طاقت کا نیا توازن*
تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
پاک سعودی دفاعی معاہدہ — خطے میں طاقت کا نیا توازن اس حقیقت کی روشن دلیل ہے کہ جب قیادت متحد ہو اور قومی مفاد کو ترجیح دی جائے تو قومیں نہ صرف اپنا دفاع مضبوط کرتی ہیں بلکہ تاریخ میں اپنی شناخت بھی امر کر جاتی ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والا اسٹریٹیجک میوچل ڈیفنس معاہدہ اسی حکمت عملی اور بصیرت کا نتیجہ ہے جس نے دونوں برادر ممالک کے تعلقات کو نئی جہت دی ہے۔
قومیں ہمیشہ اس وقت مضبوط ہوتی ہیں جب ان کی قیادت یکساں وژن اور پختہ حکمتِ عملی کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کو آگے بڑھاتی ہے۔ اس کامیابی کا سہرا تین بڑے کرداروں کو جاتا ہے: وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف، وزارتِ خارجہ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر۔ وزیر اعظم نے سیاسی سطح پر سعودی قیادت کے ساتھ اعتماد سازی اور پالیسی فریم ورک فراہم کیا، وزارتِ خارجہ نے سفارتی محاذ پر پیشہ ورانہ مہارت اور باریک بینی کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھایا جبکہ جنرل عاصم منیر نے عسکری بصیرت اور اپنے وسیع تجربے سے اس معاہدے کو عملی شکل دی۔ یہ تینوں ستون ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور انہی کی مربوط کوششوں نے پاکستان کو اس مقام پر پہنچایا کہ سعودی عرب جیسے بااثر ملک کے ساتھ ایک تاریخی دفاعی بندھن قائم ہو گیا۔
اس معاہدے کی بنیادی روح یہ ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ، مشترکہ عسکری مشقیں، دفاعی ٹیکنالوجی میں تعاون اور ہنگامی حالات میں براہِ راست امداد کی فراہمی بھی شامل ہے۔ اس تعاون سے دونوں ممالک کی افواج نہ صرف ایک دوسرے کے طریقہ کار سے واقف ہو سکیں گی بلکہ خطے میں ایک مربوط دفاعی نظام بھی تشکیل پا سکے گا۔ یہ صورتحال نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے لیے بلکہ پورے خطے میں طاقت کے توازن پر اثر انداز ہوگی اور مستقبل کے سیاسی و عسکری اتحادوں کے لیے نئے نقشے مرتب کر سکتی ہے۔
جنرل عاصم منیر کے کردار کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ان کی عسکری بصیرت اور پیشہ ورانہ تجربے نے اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ انہوں نے عسکری قیادت کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ سفارتی اور سیاسی محاذ پر بھی مربوط انداز میں اقدامات کیے جس کے نتیجے میں پاکستان کو ایک مضبوط دفاعی فریم ورک ملا۔ یہ کاوش پاکستان کی تاریخ میں ایک روشن باب کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
یہ معاہدہ محض عسکری تعاون تک محدود نہیں بلکہ اس کے سفارتی اور معاشی پہلو بھی نمایاں ہیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے اعتماد میں اضافہ، سعودی ویژن 2030 کے تحت مشترکہ منصوبے، دفاعی ٹیکنالوجی کی منتقلی اور افرادی قوت کے تبادلے جیسے عوامل دونوں ممالک کے تعلقات کو طویل المدتی بنیادوں پر مزید مستحکم کریں گے۔ اس کے دور رس اثرات بھارت کے لیے ایک واضح پیغام ہیں کہ پاکستان اپنی دفاعی حکمت عملی میں اب تنہا نہیں بلکہ ایک مضبوط اتحادی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس سے بھارت کے خطے میں دفاعی اور سفارتی منصوبوں پر نظر ثانی کا امکان پیدا ہوگا، خاص طور پر کشمیر اور سرحدی معاملات پر پاکستان کی پوزیشن مزید مضبوط دکھائی دے گی۔
یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے بھی ایک نیا تزویراتی چیلنج ہے۔ برسوں سے سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات پر بحث جاری ہے، مگر اس دفاعی شراکت داری نے واضح پیغام دیا ہے کہ سعودی سلامتی کے تصور میں پاکستان ایک کلیدی شراکت دار ہے۔ اس کے نتیجے میں خطے کی جغرافیائی سیاست میں نئے توازن ابھر کر سامنے آئیں گے۔
پاکستان کے لیے یہ معاہدہ نہ صرف دفاعی صنعت، تربیتی اداروں اور مشترکہ منصوبوں کے حوالے سے ترقی کے نئے دروازے کھولے گا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک زیادہ ذمہ دار اور بااعتماد پارٹنر کے طور پر پیش کرے گا۔ سعودی عرب کے لیے بھی یہ معاہدہ خطے کی بدلتی صورتحال میں ایک مضبوط سہارا ہے کیونکہ خلیجی خطے کے سلامتی چیلنجز اور عالمی سیاست کے نئے تقاضے ریاض کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ ایسے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہو جو عملی میدان میں ثابت قدم ہوں۔ پاکستانی افواج کی پیشہ ورانہ مہارت اور خطے کے حالات پر گہری نظر اس شراکت داری کو مزید مضبوط بنیاد فراہم کرے گی۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی رشتے کو نئی جہت دے رہا ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن، امن اور سیاسی استحکام کے لیے ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
