زوالِ صحافت|تحریر:ڈاکٹر تصور حسین مرزا

*زوالِ صحافت* تحریر: ڈاکٹر تصور حسین
مرزا صحافت کو معاشرے کی آنکھ اور جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد سچائی، غیر جانبداری اور عوامی فلاح ہے۔ قرآنِ مجید میں بھی ہدایت ملتی ہے کہ ’’اور جب بات کرو تو انصاف کے ساتھ کرو اگرچہ وہ تمہارے قریبی رشتہ دار ہی کے بارے میں ہو‘‘ (الانعام: 152)۔ یہی اصول صحافت پر بھی لاگو ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے آج کے دور میں خبر اور افواہ میں فرق مٹتا جا رہا ہے۔ بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کی دوڑ نے تحقیق و تفتیش کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ صحافت کبھی سچائی اور حق گوئی کا نام تھی۔ اخبارات میں خبر شائع ہونے سے پہلے کئی سطحوں پر جانچ پڑتال کی جاتی تھی، جبکہ اب ’’سب سے پہلے‘‘ کی دوڑ میں تصدیق نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر ریٹنگ اور سوشل میڈیا پر ویوز کی لالچ نے خبر کو پروڈکٹ بنا دیا ہے۔ سیاسی و مالی دباؤ کے باعث غیر جانبداری متاثر ہوتی ہے اور کئی ادارے مخصوص ایجنڈے کے تابع ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا نے صورتِ حال مزید پیچیدہ کر دی ہے۔ اب ہر شخص موبائل فون کے ذریعے ’’صحافی‘‘ بن گیا ہے، نتیجہ یہ کہ غیر مصدقہ خبریں وائرل ہو کر معاشرے میں خوف اور انتشار پھیلاتی ہیں۔ یہ صورتِ حال کئی منفی اثرات پیدا کر رہی ہے۔ سب سے پہلا نقصان عوامی اعتماد کے خاتمے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ جب عوام کو یقین ہو جائے کہ میڈیا غیر جانبدار نہیں رہا تو وہ خبروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ دوسرا بڑا نقصان سماجی انتشار ہے، کیونکہ غیر مصدقہ خبریں افواہوں کو جنم دیتی ہیں اور معاشرتی امن و سکون کو برباد کرتی ہیں۔ تیسرا نقصان قومی مفاد کے ساتھ جڑا ہے، بعض اوقات جلد بازی میں ایسی خبریں نشر کر دی جاتی ہیں جو قومی سلامتی اور خارجہ تعلقات پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ چوتھا اثر نئی نسل پر پڑتا ہے، جو غیر سنجیدہ اور غیر اخلاقی مواد دیکھ کر ذہنی انتشار کا شکار ہو رہی ہے۔ اگر ہم معیارِ صحافت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں کئی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے تحقیق اور تفتیشی صحافت کو فروغ دینا ہوگا۔ ہر خبر کو چھان بین اور کثیر ذرائع سے تصدیق کے بعد شائع کرنا لازمی ہونا چاہیے۔ دوسرا قدم ضابطہ اخلاق کی پابندی ہے۔ جھوٹی خبر، ذاتی کردار کشی اور مفاد پرستی سے اجتناب صحافت کا بنیادی اصول ہونا چاہیے۔ تیسری ضرورت تعلیمی اور تربیتی اداروں کی ہے جو نوجوان صحافیوں کو صرف ہنر ہی نہیں بلکہ اخلاقیات اور ذمہ داری بھی سکھائیں۔ چوتھا قدم ریگولیٹری اداروں کی فعال نگرانی ہے، جو محض جرمانوں تک محدود نہ رہیں بلکہ عملی طور پر معیار کو بلند کرنے کی کوشش کریں۔ پانچواں نکتہ اسلامی و اخلاقی اصولوں کی پاسداری ہے، کیونکہ اسلام حق گوئی، انصاف اور غیر جانبداری کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر صحافت ان اصولوں پر عمل کرے تو یہ معاشرتی اصلاح کا سب سے طاقتور ذریعہ بن سکتی ہے۔ آخر میں یہ بات واضح ہے کہ معیارِ صحافت معاشرے کی صحت کا آئینہ ہے۔ اگر صحافت سچی اور معیاری ہوگی تو قوم باشعور ہوگی، فیصلے بہتر ہوں گے اور جمہوریت مضبوط ہوگی، لیکن اگر یہ غیر معیاری اور جانبدار ہو گئی تو معاشرہ افواہوں، بداعتمادی اور انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ صحافت کو اس کے اصل مقام پر واپس لایا جائے، تاکہ یہ مفادات کی غلام نہ بنے بلکہ سچائی اور عوامی فلاح کا راستہ دکھائے۔ یہی اصل معیارِ صحافت ہے اور یہی ایک روشن اور بامقصد معاشرے کی ضمانت۔

Post a Comment

Previous Post Next Post