ڈينگی سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے ! ( تحریر ڈاکٹر تصور حسین مرزا )

*ڈینگی سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے* ! ( تحریر ڈاکٹر تصور حسین مرزا ) پنجاب سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ڈینگی (Dengue Fever) کے کیسز تیزی سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ عموماً برسات اور نمی والے موسم میں یہ وبا زیادہ شدت اختیار کر لیتی ہے۔ عوام میں خوف و ہراس پھیلنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈینگی کے بارے میں زیادہ تر معلومات افواہوں یا غیر مستند ذرائع سے حاصل کی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈینگی ایک خطرناک لیکن قابلِ قابو بیماری ہے جس سے آگاہی اور احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے بچاؤ ممکن ہے۔ ڈینگی ایک وائرل انفیکشن (Viral Infection) ہے جو ڈینگی وائرس (Dengue Virus) کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ وائرس دراصل چار مختلف اقسام (Serotypes: DEN-1, DEN-2, DEN-3, DEN-4) پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایک قسم کے وائرس سے متاثر ہو کر صحت یاب ہو جائے تو اسے زندگی بھر اسی قسم کے خلاف قوتِ مدافعت (Immunity) حاصل ہو جاتی ہے لیکن دوسری اقسام سے دوبارہ بیمار ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض افراد کو زندگی میں ایک سے زیادہ بار ڈینگی ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری انسان سے انسان میں براہِ راست نہیں پھیلتی بلکہ اسے ایڈیز ایجپٹائی (Aedes Aegypti Mosquito) نامی مچھر پھیلاتا ہے جو دن کے وقت خاص طور پر صبح اور شام کے اوقات میں کاٹتا ہے۔ اس مچھر کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات گھروں یا چھتوں پر کھڑا پانی (Stagnant Water)، پلاسٹک کے ڈبے، ٹائر یا گملوں میں جمع پانی، ناقص صفائی اور بارش کے بعد پانی کا ٹھہر جانا ہیں۔ یہ عام مچھر سے مختلف ہے کیونکہ یہ صاف پانی میں انڈے دیتا ہے اور شہری علاقوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ ڈینگی کی علامات عموماً مچھر کے کاٹنے کے 4 سے 10 دن بعد ظاہر ہوتی ہیں جن میں اچانک تیز بخار (High Fever)، شدید جسمانی اور پٹھوں کا درد (Muscle & Joint Pain)، آنکھوں کے پیچھے درد (Retro-orbital Pain)، سر درد، بھوک کا کم ہونا (Loss of Appetite)، متلی یا قے (Nausea & Vomiting) اور جلد پر سرخ دھبے (Skin Rash) شامل ہیں۔ بعض مریضوں میں بیماری خطرناک شکل اختیار کر لیتی ہے جسے ڈینگی ہیمرجک فیور (Dengue Hemorrhagic Fever) کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں پلیٹ لیٹس (Platelets) کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ناک یا مسوڑھوں سے خون آ سکتا ہے، پاخانے یا الٹی میں خون کی آمیزش ہو سکتی ہے اور مریض کو شاک (Shock) کی کیفیت لاحق ہو سکتی ہے۔ ڈینگی کی تشخیص کے لیے عام طور پر مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جن میں سی بی سی (CBC) کے ذریعے پلیٹ لیٹس اور وائٹ بلڈ سیلز کی کمی کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ این ایس 1 اینٹیجن ٹیسٹ (NS1 Antigen Test) بیماری کے ابتدائی مرحلے میں وائرس کی موجودگی ظاہر کرتا ہے جبکہ آئی جی ایم اور آئی جی جی اینٹی باڈیز (IgM & IgG Antibody Test) بیماری کی نوعیت واضح کرتے ہیں۔ ڈینگی کا کوئی مخصوص اینٹی وائرل علاج (Specific Antiviral Treatment) موجود نہیں ہے۔ علاج صرف علامات کو کم کرنے اور پیچیدگیوں سے بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ مریض کو زیادہ پانی اور مشروبات دیے جائیں تاکہ ڈی ہائیڈریشن (Dehydration) نہ ہو۔ بخار کم کرنے کے لیے صرف پیراسیٹامول (Paracetamol) استعمال کی جائے، اسپرین (Aspirin) یا آئیبوپروفین (Ibuprofen) استعمال نہ کی جائیں کیونکہ یہ خون بہنے کے خطرے کو بڑھا دیتی ہیں۔ شدید مریضوں کو اسپتال میں داخل کر کے پلیٹ لیٹس اور الیکٹرولائٹس (Electrolytes) کی مسلسل نگرانی ضروری ہے۔ چونکہ ڈینگی کا کوئی مستقل علاج نہیں اس لیے سب سے مؤثر حکمتِ عملی بچاؤ ہے۔ گھروں اور محلوں میں پانی جمع نہ ہونے دیں، پانی کی ٹینکیوں کو ڈھانپ کر رکھیں، پرانے ٹائر یا برتن وغیرہ میں پانی نہ جمع ہونے دیں، بچوں کو دن کے وقت فل بیک کپڑے پہنائیں، مچھر دانی (Mosquito Net) اور ریپیلنٹ (Mosquito Repellent) استعمال کریں اور حکومتی سطح پر اسپرے (Fumigation) مہم میں تعاون کریں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 40 کروڑ افراد ڈینگی وائرس سے متاثر ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں آبادی زیادہ اور شہری منصوبہ بندی کمزور ہے وہاں اس بیماری کے پھیلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہ مرض صرف طبی نہیں بلکہ سماجی مسئلہ بھی ہے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ صفائی ستھرائی کا فقدان اور عوامی شعور کی کمی ہے۔ اسلام میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں بھی فرمایا گیا ہے: یقیناً اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو پاکیزگی اختیار کرتے ہیں (التوبہ: 108)۔ یہ پیغام ہمیں واضح طور پر بتاتا ہے کہ بیماریوں سے بچاؤ کا پہلا اصول صفائی ہے۔ اس تناظر میں ڈینگی کے خلاف جدوجہد صرف طبی نہیں بلکہ دینی و سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ ڈینگی ایک خطرناک مگر قابلِ قابو بیماری ہے۔ اس سے ڈرنے کے بجائے سائنسی تحقیق، احتیاطی تدابیر اور اجتماعی صفائی کے ذریعے لڑنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت، عوام اور طبی ادارے مل کر اقدامات کریں تو ڈینگی کے مریضوں میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ یاد رکھیں: ڈینگی سے ڈرنا نہیں… لڑنا ہے!

Post a Comment

Previous Post Next Post