بوسنیا سے غزہ تک_تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا

*بوسنیا سے غزہ تک* _تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا_ تاریخ کبھی خاموش نہیں رہتی۔ وہ گواہی دیتی ہے، چیخ اٹھتی ہے، اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظلم جب طاقت کے ساتھ جڑ جائے تو انسانیت دفن ہو جاتی ہے۔ بوسنیا کی نسل کشی ہو یا آج کا غزہ — دونوں داستانیں ایک ہی حقیقت دہراتی ہیں: جب عالمی ضمیر سو جائے تو انسانیت تڑپتی ہے، بچے مرتے ہیں، مائیں روٹی اور زندگی دونوں مانگتی ہیں، مگر سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ 1992 سے 1995 تک بوسنیا میں تین لاکھ کے قریب مسلمان شہید ہوئے۔ پندرہ لاکھ کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ ساٹھ ہزار خواتین اور کم سن بچیوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یورپ کے دل میں برپا یہ خونیں طوفان اُس وقت کی مہذب دنیا کے لیے امتحان تھا، مگر افسوس کہ انصاف کی زبان خاموش رہی۔ اقوامِ متحدہ کے امن مشن محض تماشائی بنے رہے، اور "سیف زون" میں محفوظ کیے گئے مسلمانوں کو اجتماعی طور پر قتل کر دیا گیا۔ سربرینیتسا میں 12 ہزار نوجوانوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا، پھر قطار میں کھڑا کر کے ذبح کر دیا گیا۔ سربوں نے 800 سے زائد مساجد شہید کیں، کئی 16ویں صدی کی نشانی تھیں۔ تاریخی لائبریریاں جلا دی گئیں۔ انسانیت کا جنازہ اٹھا، مگر دنیا نے صرف تماشہ دیکھا۔ جب سرب کمانڈر سے پوچھا گیا، "تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟" تو اس نے جواب دیا، "کیونکہ وہ سور کا گوشت نہیں کھاتے!"۔ یہ جملہ نہیں، تہذیبِ مغرب کی منافقت پر لکھا گیا نوحہ ہے۔ وہی کہانی آج غزہ میں دہرائی جا رہی ہے۔ وہاں بھی مسلمانوں کا جرم صرف مسلمان ہونا ہے۔ بوسنیا میں مسلمان بھوکے مرے، غزہ میں بچے ملبے کے نیچے دم توڑ رہے ہیں۔ وہاں اقوامِ متحدہ نے چوکیاں قائم کیں، یہاں قراردادیں منظور کر کے “افسوس” ظاہر کیا جاتا ہے۔ بوسنیا میں امدادی سامان راستے میں لوٹ لیا جاتا تھا، غزہ میں قافلے بمباری کا نشانہ بنتے ہیں۔ تب بھی مظلوم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے تھے، آج بھی وہی آہ آسمان کو چیرتی ہے۔ بوسنیا کے سربوں نے علما، دانشوروں اور تاجروں کو نشانہ بنایا تاکہ مسلمان سماج کی بنیادیں کمزور ہو جائیں۔ آج غزہ میں ڈاکٹر، صحافی اور پروفیسر مارے جا رہے ہیں تاکہ سوچنے، لکھنے اور آواز اٹھانے والا کوئی نہ بچے۔ بوسنیا میں سرب عورتوں کو قید کر کے ان سے "سرب بچے" پیدا کرانا چاہتے تھے۔ آج غزہ میں ماؤں کے جسم اور بچوں کی لاشیں پیغام دے رہی ہیں کہ انسانیت کی روح مر چکی ہے۔ یہ سب محض ماضی کا نوحہ نہیں، بلکہ حال کا کرب ہے۔ 30 سال بعد بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ اُس وقت کے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بطرس غالی نے سربوں کی حمایت کی تھی، آج بھی طاقتور ممالک اسرائیل کے حق میں وہی کردار ادا کر رہے ہیں۔ نام بدلے ہیں، کردار نہیں۔ دنیا کا انصاف آج بھی طاقت کے تابع ہے، مظلوم کے نہیں۔ کرسٹیانا امانپور نے بوسنیا کے دنوں میں کہا تھا: “یہ قرونِ وسطیٰ کی جنگ تھی — مسلمانوں کا قتل، محاصرہ اور بھوکا رکھنا۔” اگر آج وہی الفاظ غزہ پر بولے جائیں تو ایک حرف بھی غلط نہ ہو گا۔ تاریخ ہمیں چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ظلم اگر آج تمہارے دروازے پر نہیں آیا تو کل تمہاری دہلیز پر ضرور ہو گا۔ بوسنیا کے مسلمانوں کو تب مدد کی امید تھی، غزہ کے لوگ آج بھی امید پر زندہ ہیں۔ مگر ہم؟ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ہم بھول گئے کہ خاموشی بھی جرم ہے۔ بوسنیا کے قبرستان گواہی دے رہے ہیں کہ جب ظلم کے سامنے بولنے والا کوئی نہ ہو تو انسانیت مر جاتی ہے۔ آج غزہ کے ملبے تلے دبے بچے وہی سوال پوچھ رہے ہیں: “کیا ہمارا خون بھی رنگ رکھتا ہے؟” تاریخ کی کہانیاں بچوں کو سلانے کے لیے نہیں سنائی جاتیں، مردوں کو جگانے کے لیے سنائی جاتی ہیں۔ بوسنیا کا نوحہ، غزہ کی چیخ اور ہماری خاموشی — یہ تینوں دنیا کے ضمیر پر لکھا ہوا ایک ہی سوال ہیں: کیا ہم واقعی انسان ہیں؟ اللہ ان سب مظلوموں پر رحم فرمائے جن کا جرم صرف مسلمان ہونا ہے، اور ان پر بھی جو ظلم دیکھ کر چپ ہیں۔ کیونکہ تاریخ بتاتی ہے — خاموش رہنے والے کبھی بے گناہ نہیں ہوتے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post