*عشقِ رسول ﷺ میں مست اقبالؒ*
✍️ تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
علامہ اقبالؒ محض شاعر نہیں تھے بلکہ ایک مرد قلندر، فلسفی اور امت کے بیدار گر تھے۔ ان کی شاعری قرآن کی روشنی، عشقِ رسول ﷺ اور فلسفۂ خودی کا امتزاج ہے۔ ہر شعر میں ولولہ، تحریک اور فکر کی روشنی چھپی ہے، جو دل و دماغ کو جگانے کا سبب بنتی ہے۔
اقبالؒ نے فرمایا:
؎ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی، تُو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن۔
یہ شعر انسان کو اپنی ذات کی حقیقت پہچاننے، اپنی قدر کو سمجھنے اور خودی کی طاقت حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اقبالؒ کے نزدیک مسلمانوں کی فکری بیداری اور پاکستان جیسی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے ان کے فلسفۂ خودی کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی تقدیر خود سنواریں، دین و تہذیب کی بنیاد پر عزت و شرف حاصل کریں اور اخلاقی و روحانی طور پر مضبوط ہوں۔
؎ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
اقبالؒ نے مسلمانوں کی فکری اور عملی ترقی کے لیے شاعری کو راستہ دکھانے، ولولہ پیدا کرنے اور حوصلہ دینے کے لیے استعمال کیا۔ وہ فرماتے ہیں:
؎ خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ، خودی کا مطلب ہے، ملت کو اپنی تقدیر سنوارنا۔
اقبالؒ کی اردو شاعری نے ہمیشہ عمل، غیرت اور تحریک کو فروغ دیا۔ ان کے اشعار آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں ولولہ پیدا کرتے ہیں:
؎ اٹھو میری دنیا کے شہزادوں، غفلت کی زنجیر توڑو، وقت کی دھار میں سر نہ جھکاؤ، کفر و ظلم کے خلاف قدم بڑھاؤ۔
؎ نہ زاد راہ رہرو، نہ کوہ و در ہوں، جہاں خودی ہے وہیں منزل بھی ہے۔
؎ وجودِ ملتِ بیضا پہ کوہِ گراں بنو، محمد ﷺ عربی ﷺ کا غلامِ بے زباں بنو۔
یہ اشعار نہ صرف فرد کی بیداری بلکہ امت کی اجتماعی فکری و روحانی ترقی کی بھی علامت ہیں۔
1930ء میں اقبالؒ نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ ان کے نزدیک مسلمان ایک الگ قوم ہیں جن کا دین، تہذیب اور ثقافت مخصوص ہے۔ ان کا فلسفہ تھا کہ پاکستان جیسے علاقے میں ایک خودی، فکری اور روحانی بیداری والی اسلامی ریاست قائم کی جا سکتی ہے، جو نہ صرف سیاسی طور پر آزاد بلکہ اخلاقی اور روحانی طور پر مضبوط ہو۔
عشقِ مصطفی ﷺ اور ادبِ نبوی ﷺ کا روشن واقعہ
لاہور کے ایک مشاعرے میں، جب ایک شاعر نے حضور اکرم ﷺ کی مدح میں اشعار سنانے کے بعد بے ادبی سے آواز بلند کی، تو اقبالؒ فوراً کھڑے ہوئے۔ آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر شدت کے اثرات واضح تھے۔ پورے جذبے کے ساتھ فرمایا:
“جناب! یہ دربارِ مصطفی ﷺ ہے، یہاں آواز نیچی رکھو۔”
یہ لمحہ اقبالؒ کے عشقِ رسول ﷺ اور ادبِ نبوی ﷺ کا اعلیٰ ترین ثبوت تھا، جو ان کے ولولے اور ملت کے لیے ان کے پیغام کو سب کے سامنے واضح کرتا ہے۔
عشقِ رسول ﷺ میں مست اقبالؒ | ✍️ تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
byPakistan News 4k
-
0
