اقلیتیں اور ریاستی دوہرا معیار |:- تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا

*اقلیتیں اور ریاستی دوہرا معیار* تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا برصغیر کی جمہوریتوں میں اقلیتوں کے حقوق کا سوال ہمیشہ سے حساس رہا ہے، مگر حالیہ برسوں میں یہ سوال محض آئینی بحث نہیں رہا بلکہ عملی رویّوں کی صورت میں نمایاں ہو چکا ہے۔ بھارت کی ریاست بہار میں پیش آنے والا واقعہ، جس میں وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار نے ایک سرکاری تقریب کے دوران مسلم خاتون ڈاکٹر نصرت پروین کا نقاب زبردستی نیچے کیا، اسی سلسلے کی ایک واضح مثال ہے۔ یہ محض ایک لمحاتی حرکت نہیں بلکہ اس ذہنیت کا اظہار ہے جس میں اقلیتوں کی شناخت اور وقار کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر نصرت پروین AYUSH سے وابستہ ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں، جو ریاستی ملازمت کے لیے منتخب ہوئیں اور تقرری نامہ وصول کرنے اسٹیج پر آئیں۔ ان کا نقاب ان کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کا حصہ تھا، نہ کوئی اشتعال، نہ کوئی قانون شکنی۔ اس کے باوجود ریاست کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخص کی جانب سے ان کے لباس میں مداخلت نے یہ تاثر گہرا کر دیا کہ اقلیتوں کے حقوق عملی طور پر اکثریتی پسند و ناپسند کے تابع ہیں۔ اصل سوال نقاب یا حجاب کی افادیت کا نہیں، بلکہ ریاستی اختیار کی حدود کا ہے۔ کیا کسی جمہوری نظام میں حکومت یا اس کا سربراہ یہ حق رکھتا ہے کہ وہ کسی شہری کے لباس اور شناخت کا تعین کرے؟ اگر ریاست اس حد تک مداخلت کرے تو پھر شخصی آزادی، نجی زندگی اور مذہبی اظہار جیسے حقوق محض کتابی اصطلاحات بن کر رہ جاتے ہیں۔ بھارتی آئین مذہبی آزادی، شخصی وقار اور نجی زندگی کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ مگر عملی صورتِ حال یہ ہے کہ یہی حقوق اقلیتوں کے معاملے میں اکثر مشروط دکھائی دیتے ہیں۔ اکثریتی روایات کو معمول سمجھا جاتا ہے، جبکہ اقلیتوں کی شناخت کو کبھی سیکولرزم اور کبھی نظم و ضبط کے نام پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی دوہرا معیار وہ بنیاد ہے جس پر سوتیلی ماں والا سلوک استوار ہوتا ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں۔ کبھی تعلیمی اداروں میں حجاب کو مسئلہ بنایا جاتا ہے، کبھی مذہبی علامات پر اعتراض اٹھایا جاتا ہے۔ ان اقدامات کا مجموعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقلیتیں خود کو ریاست کی مکمل سرپرستی کے بجائے اکثریت کے رحم و کرم پر محسوس کرنے لگتی ہیں۔ کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے یہ کیفیت خطرے کی علامت ہے۔ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ اگر کسی ادارے میں ڈریس کوڈ موجود ہو تو اس پر عملدرآمد کا آئینی اور مہذب طریقہ موجود ہے۔ تحریری ہدایات، ادارہ جاتی مکالمہ اور قانونی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے، نہ کہ کسی خاتون کے ذاتی وقار کو سرِعام مجروح کیا جائے۔ زبردستی نقاب اتارنا محض انتظامی قدم نہیں بلکہ طاقت کے غلط استعمال کی مثال ہے۔ وزیرِ اعلیٰ جیسے منصب پر فائز شخص کا ہر عمل ریاستی رویّے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جب اقلیتوں کے سامنے یہ پیغام جائے کہ ان کی شناخت قابلِ قبول نہیں، تو اس کا نتیجہ عدم تحفظ، خوف اور سماجی تقسیم کی صورت میں نکلتا ہے۔ ریاست کا کام شہریوں کو جوڑنا ہے، نہ کہ ان کے درمیان تفریق کو گہرا کرنا۔ اقلیتوں کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک دراصل جمہوریت کے دعوؤں کو کمزور کرتا ہے۔ اگر حقوق اکثریت کے لیے غیر مشروط ہوں اور اقلیتوں کے لیے ان کی تشریح بدل جائے تو ریاست غیر جانبدار نہیں رہتی۔ ایسی صورت میں آئین محض ایک دستاویز اور انصاف محض ایک نعرہ بن جاتا ہے۔ بہار کا یہ واقعہ ایک تنبیہ ہے۔ آج معاملہ ایک خاتون ڈاکٹر کے نقاب تک محدود ہے، کل یہ کسی اور کی زبان، لباس یا عقیدے تک پھیل سکتا ہے۔ اگر اس رویّے کو بروقت نہ روکا گیا تو یہ وقتی لغزش نہیں رہے گا بلکہ مستقل پالیسی کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ریاست کی اصل طاقت عہدوں یا اختیار میں نہیں بلکہ انصاف میں ہوتی ہے۔ جب انصاف بلا امتیاز کمزور، اقلیت اور مختلف شناخت رکھنے والے شہریوں تک پہنچے، تبھی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ بصورتِ دیگر، ایسے واقعات محض خبریں نہیں رہتے بلکہ قوموں کے اجتماعی ضمیر پر مستقل سوال بن کر ثبت ہو جاتے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post